آج کی دنیا میں اب یہ لگ بھگ ناممکن سا ہوگیا ہے کہ اصلی اور نقلی کے درمیان فرق کیا جائے۔ نقلی بھی اس روپ میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے کہ پتا ہے نہیں چلتا ہے کہ یہ نقلی ہے ۔ انسان نے زیادہ تر جان بوجھ کر دونوں کی پہچان کرانے والی لکیر کو ختم کر دیا ہے۔ ہاں، کھبی انجانے میں بھی یہ کام ہوا ہے، مگر زیادہ تر مواقع پر یہ کام سوچ سمجھ کر انجام دیا گیا ہے۔
کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر انسان قسم کی گھٹیا حرکت کرنے پر اتر آیا؟ جی ہاں اس کے پیچھے بہت سارے مفادات کا عمل دخل ہیں۔ سب سے پہلا ہے مادیت۔ انسان مادیت کی دوڑ میں ایسا لگ گیا ہے کہ اب اس کو اصلی اور نقلی کی پہچان ختم ہوگئی ہے۔ پیسہ، زمین، گاڑیاں، وغیرہ اس کے ذہن میں ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس کے بغیر اس کو کچھ اور سوجتا بھی نہیں ہے۔ صبح شام انسان کے اس فکر میں گزرجاتے ہیں کہ کیسے زیادہ سے زیادہ مال جمع کیا جائے۔ اس طلب نے انسان کو چیزوں کی اصلی شناخت کرنے سے دور رکھا ہے۔
دوسرا ہے دنیا کی محبت۔ اصلی اور نقلی کے درمیان فرق کرنے کی وجہ سے انسان کو ایک سیدھے راستے پر چلنا پڑے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ نقلی سے پرہیز کرنا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انسان کو جوابدہی کا مادہ پیدا ہوگا۔ اور جب یہ بات ہوں، تب دنیا میں رہ کر دنیا سے لو لگانا، عقل سے بعید ہے۔ تو اس کے برعکس انسان نے جوابدہی اور دوسرے اعمال کے حساب کو ایک طرف کرکے، اصل اور غلط یا اصلی اور نقلی کو ملا کر اس دنیا کو بہت مضبوطی سے گلے لگایا ہے۔
تیسرا ہے تنہائی۔ انسان کو یہ بات وثوق سے معلوم ہے کہ اگر وہ صرف اصلی چیزوں کا سوداگر بنتا ہے، تو اس کا تنہا ہونا طے ہے۔ جب اکثریت نقالی میں ملوث ہوں، تو گنے چنے افراد کا اصلی ہونا، زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ تو اس تنہائی سے بچنے کے لئے انسان نے اصلی اور نقلی کے درمیان فرق کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اس طرز عمل کے نتائج ہر جگہ نمایاں ہیں۔ انسان ہر جگہ مشکلات میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کا ذہنی سکون ختم ہوچکا ہے۔ ذہنی سکون کے لئے اب وہ مختلف اقسام کے ادویات استعمال کرتا ہے، مگر پھر بھی وہ سکون سے بہت دور ہے۔ اس کے علاوہ قتل و غارت کا بازار بھی گرم ہے۔ مادیت کی دوڑ میں اخلاقی اصول کو پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ نکلا کہ انسان انسان کا گلہ کاٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے سماج میں اب شکوک و شبہات بڑھ گۓ ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان پر اب بھروسہ کرنے سے ڈرتا ہے۔ انسان دوسرے انسان کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے سماج میں ہمدردی اور برادری کے اوصاف غائب ہوگئے ہیں۔
اشرفالمخلوقات ہونے کی وجہ سے انسان کو پھر سے اپنے منصب کو پہچاننا چاہیے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اللہ کی طرف واپس لوٹا جائے اور اصل کو اصل اور نقل کو نقل رہنے دے۔ کل اللہ کے حضور کھڑا ہونا ہے۔ وہاں اللہ تعالٰی اس گناہ عظیم کی پرسش ضرور کرے گا۔ اللہ ہم سب کو دین پر مکمل ایمان کے ساتھ چلنے کی توفیق دے۔