گزرا ہے سماں، گزری ہے عمر
گزرنے کو ہے یہ شمس و قمر
سنبھل کر اٹھا ہوں کتنی بار
تو واحدے عہد اے دلکش بہار
مجھے کہنے دو آج دل کی یہ بات
گزرے ہیں دن، گزرے گی رات
آج تم مجھ سے ایک وادہ نبھانا
نہ چاہیے مجھے آج ایک اور بہانہ
ستاروں سے آگے ملی ہے کہانی
یہ رنگ ِ محفل، یہ رات سہانی
کہاں تم اور کہاں میں
کہاں روز مرہ کے سلسلیں
مجھے کہنے دو آج دل کی یہ بات
گزرے ہیں دن، گزرے گی رات