Home اردو !قلم لکھے تو کیا لکھے

!قلم لکھے تو کیا لکھے

0

خدا نے اپنی کتاب، قرآن میں قلم کی قسم کھاکر ہم لوگوں کو یہ بات سمجھاتا ہے کہ یہ قلم کتنا ضروری ہے۔ یہ بات بہت پرانی ہے کہ قلم شمشیر سے زیادہ تیز ہے۔ قلم قوموں کی تقدیروں کو بدلنے میں معاون ہے۔ اس قلم نے ہی قوموں کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس کی بدولت ترقی کی راہیں کھل گئی، تو کبھی غربت کے پھندے نصیب میں آۓ۔ بے زبانوں کو اس نے بولنے والی زبان عطا کئی۔ دبے ہوئے لوگوں کو ابھارا۔ تو کبھی زبان والوں کی ہی زبانیں بند کئی۔ اس کے معنی یہ ہوۓ کہ قلم کا عمل دخل ملا جلا ہے۔

مگر جب آج قلم کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں، تو ایک ذی حس انسان پچھتاوا کۓ بغیر اور کچھ نہیں کرپاتا ہے۔ قلم آج تجارت بن چکا ہے۔ عزت کی سیڑھیاں اترتے اترتے اب یہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے، جہاں اب سے خیر کی توقع کرنا دانشمندی کا کام نہیں ہے۔ یہ قلم ان لوگوں کے ہاتھوں میں دیا گیا ہے، جو اس کے قابل نہیں ہے۔ دکان سے قلم خریدنا اور پھر کچھ الفاظ لکھنا، کسی بھی لحاظ سے قلم کی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔ قلم تھامنے کے لئے مخصوص ہاتھوں کی ضرورت ہیں، جو اس کا صحیح اور خوبصورت استعمال کرسکے۔ مگر اب جب کہ قلم غلط ہاتھوں میں آچکا ہے اور یہ اب بک چکا ہے، تو اس کے پیچھے کچھ وجوہات کا عمل دخل ہیں، جن کا ذکر آنے والی سطروں میں کیا جارہا ہے۔

پہلا ہے مادیت۔ اس نے قلم کو ایک خریدنے اور بکنے والی شۓ بنا دیا ہے۔ اس سے اب صرف دولت کمانے کا کام لیا جا رہا ہے۔ ظالم کے حق میں بولنے سے قلم قار کی جھولی میں پیسوں کے انبار لگتے ہیں۔ حق کو ناحق کہنے میں قلم ہچکچاتا نہیں ہے کیونکہ اس سے مادیت کے دروازے کھلتے ہیں۔

دوسری وجہ ہے ظالم کا خوف۔ ہمیشہ سے قلم نے ظالموں کو ننگا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ مظلوموں کے حق میں قلم نے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ ظالم نے قلم کو خریدا ہے اور اس سے جو کام لینا چاہتا ہے، آرام سے لیتا ہے۔ اس بے بسی نے قلم کو بے سود بنا دیا ہے۔

تیسرا ہے قلم کی اہمیت سے ناواقفیت۔ ایک قلمکار کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ اس کے ہاتھ میں کونسی نعمت ہے۔ اس کی افادیت آنکھوں سے اوجھل ہو چکی ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ میرے ہاتھ میں کچھ پیسوں کی قلم ہے، جو دوسروں چیزوں کی طرح ہے۔ اس کا کوئی خاص مقصد نہیں ہے۔

چوتھا ہے زمانے کی رفتار۔ اب سائنس نے ترقی کئی ہے۔ انسان کو اب سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کرنا چھوڑ دینا چاہیے۔ آج صرف ایک ہی مقصد ہے کہ جتنی بےلگام ترقی ہوسکے، اتنا ہی بہتر۔ اب اخلاقی پیچیدگیوں میں پھنسنا اور قلم کو اس کے تابع کرنا، گزرے ہوئے زمانے کی باتیں ہیں۔ اب اس کے اوپر دیکھنا ہی دانشمندی ہے۔ اس سے قلم کی اہمیت بہت نچلے درجے تک پہنچی ہے۔

وقت کی پکار ہے کہ قلم کے وقار کو بحال کیا جائے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تو پھر ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں، جو ہمیں پھر سے قلم کی افادیت سے روشناس کراۓ۔ تہذیبوں کے عروج کے لئے قلم سب سے اہم چیز ہے۔ ہم بھی تو تہزیب یافتہ ہے۔ تو پھر ہم کیوں وقت ضائع کرے۔ کیوں نہ ہم قلم کو ظالم کو للکارنے کے لئے استعمال کرے۔ مادیت سے اوپر اٹھ کر قلم کو روزگار کا ذریعہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر اس کو صرف مادیت کا لباس پہنانا ظلم کی علامت ہے۔ تو آۓ قلم کو اپنا مقام واپس دلانے کی کوشش کرے۔

Follow Us

The Kashmir Pulse is now on Google News. Subscribe our Telegram channel and Follow our WhatsApp channel for timely news updates!

NO COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Exit mobile version