اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے مگر جب یہی انسان جانور کی سطح پر آتا ہے تو انسانیت شرم سے اپنا سر پیٹتی ہے۔ امریکا کے ساتھ یہی کچہ ہوا۔ طاقت کے نشے میں چور وہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ دکھانا چاہتا۔ تھا اور اس نشے میں چور وہ افغانستان پر حملہ کر کے یہاں اسلام اور وسائل پر وار کرنا چاہتا تھا مگر اللہ تعالی نے اسکی مکارانہ کھیل کو اختتام تک لے جانے سے پہلے ہی روک کر امریکا کو ذلت کا جاما پہنا دیا۔
معصوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنا کر وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی من مانی کرے گا مگر اللہ کی لاٹھی بآواز ہے مگر انصاف ضرور کرتی ہے۔ امریکا جس غرض سے افغانستان میں داخل ہوا تھا اس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ کھربوں کا نقصان کرنے کے بعد اس کو سمجھ میں آیا کہ افغانستان میں افغان طالبان کو ہرانا بہت مشکل ہے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ یہ واضح حقیقت ہے کہ جو بھی افغانستان میں حملہ آور کی شکل میں آتا ہے، ذلیل ہو کر نکل جاتا ہے. یہ اللہ کی مرضی یا پہر کچھ اور۔
برطانیہ سے لیے کر سابق روس اور اب امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی اس ملک سے بے عزت ہو کر جا رہے ہیں۔ اس لئے افغانستان کو ” تہذیبوں کا کھنڈر ” کھا گیا ہے۔ یھا جو بھی طاقت ور ملک آتا ہے، ہار کر چلا جاتا ہے۔ اب اگر یہ بات ہے، تو اس کے پیچھے کچھ وجوہات ہونگے جو افغانستان کو ہر بار جیت سے ہمکنار کرتے ہیں۔
پہلا ہے اللہ پر ایمان۔ افغان طالبان دنیا میں رہ کر بھی دنیا کی جاہ و حشمت سے مانوس نہیں ہوتے۔ ان کے مطابق دنیا کی رونق سے اثر انداز نہیں ہوتے۔ ان کی نظر آخرت پر ہے جو دنیا کی دولتوں سے بہت اعلی ہے۔ مکان، دولت، گاڈی، وغیرہ ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ ان کی نظر ستاروں سے آگے جہاں اور بھی پر ہے۔ دوسری طرف سے امریکا بزدل اور مکار ہے جس کی نطر چار دن کی زندگی پر ہے۔ ایسے میں افغانستان کو ہرانا ناممکنات میں شمار ہوتا ہے۔
دوسرا ہے آپسی اتحاد۔ یہ لوگ آپسی بھائی چارے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ لوگ ایک سربراہ کےاندر رہ کر وہ کوئی بھی معرکہ سرانجام دیتے ہیں۔ سب مغربی سوپر پاور ممالک نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔ اور اس خصوصیت کے بنیاد پر اللہ تعالی ان کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑتا۔
تیسرا ہے اپنے ملک کی پہچان۔ وہ اپنے ملک کے ہر ذرے سے واقف ہے۔ باہر سے آنے والی کسی بھی طاقت کے لۓ وہاں کی زمین سے واقف ہونا بہت کٹھن کام ہے۔ یہی ہر کسی سپر پاور سے ہوا۔ افغانستان کی زمین پہاڑوں سے گری ہوئی ہے، تو ایسے میں باھر سے آنے والی ملک کو ہر اس زمین پر اپنا قبضہ جمانا آسان نہیں ہوتا۔ یہ چیز بھی اس زمین کے لئے مفید ثابت ہوتی آرہی ہے۔
چوتھا اور آجری ہےمزہب۔ اس جگہ کو اسلام میں آجری جنگ کے لئے اللہ تعالی نے چنا ہے۔ خراسان سے ہی آخری فوج نکلی گی جو حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کریں گی۔ تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے، اس جنگ سے پہلے ہیاں میدان جنگ سجے گے۔ یہ امریکا کا وہاں سے نکلنا ہی اس گھڑی کی طرف اشارہ ہے۔ لگ بھگ ایک مہینے پہلے ۸۰ ممالک برطانیہ میں جمع ہوۓ جن کا مقصد اسلام اور چین کو روکنا ہیں۔ یہ اشارہ ہے آنے والے وقت کی طرف۔ جنگ تو کسی بھی صورت میں ہوگی، اب دیکھنا یہ ہے کہ بلاک کہاں اور کن ممالک کے درمیان بنتے ہیں۔ تو ایسے میں افغانستان کی اقتصادی قیمت اور مزہبی خاصیت کی وجہ سے، یہاں بہت کچھ ہونے والا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر نے دنیا کو رو حصوں میں بانٹا؛ ایک جمہوری اور دوسرا غیر جمہوری۔ مگر وہ یہ بات کہنا بول گۓ جو ۱۹۹۳ء میں ایک مغربی مصنف نے کھا تھا کہ تصادم تو اسلام اور مغرب کے درمیان ہوگا۔
اب تو وقت کی نزاکت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آگے افغان طالبان کو بہت کچھ سہنا ہے۔ اس زمین کو کھنڈر بنانے والے بھی کھبی سکھ سے نہیں جی پاۓ گۓ۔ داعش مغربی ممالک کی کارستانی تھی، جو بے نقاب ہو گئ۔ اب طالبان کو ان سے پھر سے نپٹنا ہیں۔ اور وہ لوگ جو یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان پھر سے خانہ جنگی میں مبتلا ہوگا، وہ خواب سے بیدار ہو جائے۔ پراکسی وار کا زمانہ اب ختم ہو چکا ہے۔
دستبرداری: ایک رائے کا ٹکڑا ایک مضمون ہے جو مضمون کے بارے میں مصنف کی رائے کی عکاسی کرتا ہے۔ کشمیر پلس ان آرٹیکل میں اظہار خیالات اور آراء کی توثیق نہیں کرتی کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ زیر بحث مسائل پر ہماری سرکاری پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔
Follow Us
The Kashmir Pulse is now on Google News. Subscribe our Telegram channel and Follow our WhatsApp channel for timely news updates!